Welcome to this beautiful journey of husband wife love poetry in urdu. Throughout this article, you will find many golden Quotes about husband wife love Poetry. These are Quotes that will make you and your family a beautiful world. Impress yourself and your family by reading these Quotes and sharing them with your family.
husband wife love poetry in urdu
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی
قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو
ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
صبح سویرا دفتر بیوی بچے محفل نیندیں رات
یار کسی کو مشکل بھی ہوتی ہے اس آسانی پر
عید پر مسرور ہیں دونوں میاں بیوی بہت
اک خریداری سے پہلے اک خریداری کے بع
بن تمہارے میں جی گیا اب تک
تم کو کیا خود مجھے یقین نہیں
سخت بیوی کو شکایت ہے جوان نو سے
ریل چلتی نہیں گر جاتا ہے پہلے سگنل
مجھے اپنی بیوی پہ فخر ہے مجھے اپنے سالے پہ ناز ہے
نہیں دوش دونوں کا اس میں کچھ مجھے ڈانٹتا کوئی اور ہے
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے
ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے
حال دل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح
روبرو ان کے نہیں چلتی زباں اچھی طرح
زباں خاموش مگر نظروں میں اجالا دیکھا
اس کا اظہار محبت بھی نرالا دیکھا
سب کچھ ہم ان سے کہہ گئے لیکن یہ اتفاق
کہنے کی تھی جو بات وہی دل میں رہ گئی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں
مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے
کب میں کہتا ہوں مجھے پیار ہی کرتا جائے
اظہار عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہؔ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
زبان دل کی حقیقت کو کیا بیاں کرتی
کسی کا حال کسی سے کہا نہیں جاتا
کوئی ملا ہی نہیں جس سے حال دل کہتے
ملا تو رہ گئے لفظوں کے انتخاب میں ہم
کیجے اظہار محبت چاہے جو انجام ہو
زندگی میں زندگی جیسا کوئی تو کام ہو
حال دل سنتے نہیں یہ کہہ کے خوش کر دیتے ہیں
پھر کبھی فرصت میں سن لیں گے کہانی آپ کی
حال دل یار کو محفل میں سنائیں کیوں کر
مدعی کان ادھر اور ادھر رکھتے ہیں
دل سبھی کچھ زبان پر لایا
اک فقط عرض مدعا کے سوا
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور
اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلم
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
مسکرائے وہ حال دل سن کر
اور گویا جواب تھا ہی نہیں
اپنی ساری کاوشوں کو رائیگاں میں نے کیا
میرے اندر جو نہ تھا اس کو بیاں میں نے کیا
کیا ملا عرض مدعا سے فگارؔ
بات کہنے سے اور بات گئی
کیا بلا تھی ادائے پرسش یار
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا
مدعا اظہار سے کھلتا نہیں ہے
یہ زبان بے زبانی اور ہے
میں نے پوچھا تھا کہ اظہار نہیں ہو سکتا
دل پکارا کہ خبردار نہیں ہو سکتا
اچھی خاصی دوستی تھی یار ہم دونوں کے بیچ
ایک دن پھر اس نے اظہار محبت کر دیا
تو نے جس بات کو اظہار محبت سمجھا
بات کرنے کو بس اک بات رکھی تھی ہم نے
ہائے اظہار کر کے پچھتائے
اس کو اک دوست کی ضرورت تھی
کیوں نہ تنویرؔ پھر اظہار کی جرأت کیجے
خامشی بھی تو یہاں باعث رسوائی ہے
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری
لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا
تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں
محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے
جب تم چلو زمین چلے آسماں چلے
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
بہت دنوں سے مرے ساتھ تھی مگر کل شام
مجھے پتا چلا وہ کتنی خوب صورت ہے
دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
سانس لیتی ہے وہ زمین فراقؔ
جس پہ وہ ناز سے گزرتے ہیں
چاند سا مصرعہ اکیلا ہے مرے کاغذ پر
چھت پہ آ جاؤ مرا شعر مکمل کر دو
میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے
اک تجھ کو دیکھنے کے لیے بزم میں مجھے
اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا
چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا
چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری
پاؤں ساکت ہو گئے ثروتؔ کسی کو دیکھ کر
اک کشش مہتاب جیسی چہرۂ دل بر میں تھی
وہ چاندنی میں پھرتے ہیں گھر گھر یہ شور ہے
نکلا ہے آفتاب شب ماہتاب میں
کیوں وصل کی شب ہاتھ لگانے نہیں دیتے
معشوق ہو یا کوئی امانت ہو کسی کی
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
ہم کو اکثر یہ خیال آتا ہے اس کو دیکھ کر
یہ ستارہ کیسے غلطی سے زمیں پر رہ گیا
ہم خدا کے کبھی قائل ہی نہ تھے
ان کو دیکھا تو خدا یاد آیا
کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند
ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا
اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی
کیا ستم ہے کہ وہ ظالم بھی ہے محبوب بھی ہے
یاد کرتے نہ بنے اور بھلائے نہ بنے
چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے
تجھ کو دیکھا ہے تو تجھ سا نہیں دیکھا میں نے
چاندنی راتوں میں چلاتا پھرا
چاند سی جس نے وہ صورت دیکھ لی
دنیا سے کہو جو اسے کرنا ہے وہ کر لے
اب دل میں مرے وہ علیٰ الاعلان رہے گا
روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد
آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا
مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا
سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا
پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے
اس دشمن وفا کو دعا دے رہا ہوں میں
میرا نہ ہو سکا وہ کسی کا تو ہو گیا
آسماں جھانک رہا ہے خالدؔ
چاند کمرے میں مرے اترا ہے
تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار
زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے
مہربانی آپ کی نا مہربانی آپ کی
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
ادا و ناز و کرشمہ جفا و جور و ستم
ادھر یہ سب ہیں ادھر ایک میری جاں تنہا
میرا معشوق ہے مزوں میں بھرا
کبھو میٹھا کبھو سلونا ہے