Welcome to this beautiful journey of hazrat ali quotes about taqdeer in urdu. Throughout this article, you will find many golden Quotes about Hazrat Ali Quotes . These are Quotes that will make you and your friends a beautiful world. Impress yourself and your friends by reading these Quotes and sharing them with your friends.
hazrat ali quotes about taqdeer in urdu
بے شک سب سے زیادہ خوش عیش وہ انسان ہے جو اللہ تبارک و تعالی کی تقسیم پر راضی ہو۔
بے شک جو شخص روزی کی فکر سے، جس کا اللہ تعالی خود ضامن اور ذمہ دار ہے، فارغ ہو کر اپنے نفس کو اس کے فرائض کے ادا کرنے میں مصروف رکھے اور اس کی تقدیر پر نفع ونقصان کی حالت میں راضی رہے وہ سب سے زیادہ سلامتی اور آرام میں رہے گا۔ اس کو نفع اور خوشی حاصل ہو گی اور دوسرے لوگ اس کی حالت پر رشک کریں گے۔
بے شک اللہ تبارک و تعالی نے جو رزق لوح محفوظ میں کسی بندے کے حق میں لکھ دیا ہے بندہ اس میں ذرہ بھر اضافہ کرنے کے لئے کیسی ہی تدابیر کرے، کتنی ہی زیادہ تلاش کرے اور کیا کیا حیلے نکالے وہ اس کو زیادہ نہ کر سکے گا اور اگر چہ کوئی آدمی کیسا ہی کمزور اور روزی کمانے کی تدابیر سے نا آشناء ہو مگر جو رزق اللہ تبارک و تعالی نے اس کے لئے مقرر فرمایا ہے وہ اسے ضرور پہنچے گا اور جو لوگ اس مسئلہ کوسمجھ کر اس پر کار بند ہوئے ہیں وہ سب سے زیادہ آرام اور نفع میں ہیں اور جن کو اس میں شک ہے وہ سب سے زیادہ فکر و غم اور نقصان میں ہیں۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے وہ نہایت چین و آرام سے زندگی بسر کرتا ہے۔
جو تقدیر الہی کا مقابلہ کرتا ہے، مغلوب ہو جاتا ہے اور جو دنیا سے کشتی لڑتا ہے دنیا اسے چت گرا دیتی ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی تقسیم پر قناعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کسی کا محتاج نہیں کرتا۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے وہ نہایت پر سکون اور خوش رہتا ہے۔
جس شخص کی تدبیر ٹھیک نہیں ہوتی اس کے مقسوم بھی خراب ہو جاتے ہیں۔
جو شخص تقدیر الہی پر راضی رہتا ہے، وہ زمانے کے حوادث کو ہیچ سمجھتا ہے اور ان سے گھبراتا نہیں۔
روزی وہ چیز ہے، جو اس کو تلاش نہ کرے اس کو بھی پہنچ جاتی ہے۔
ایمان، اخلاص عمل، ورع ، صبر، یقین اور رضا بالقضاء اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کا نام ہے۔
تقدیر الہی قوت اور کوشش سے دفع نہیں ہوتی اور روزی حرص اور طلب سے نہیں ملتی۔
تقدیر پر راضی رہنے پرغم دور ہو جاتے ہیں۔
نصیب ایک ایسی چیز ہے کہ جو اس کو طلب نہ کرے اس کو بھی مل جاتی ہے۔
موت کا وقت مقرر اور روزی پہلے سے بٹ چکی ہے۔ پس کوئی شخص روزی دیرسے پہنچنے سے پریشان نہ ہو کیونکہ حرص کرنے سے روزی کچھ پہلے نہیں مل جاتی اور سوال نہ کرنے سے کچھ مؤخر نہیں ہو جاتی۔
اللہ تعالی سے حیا کرنی بہت سے گناہوں کو مٹا دیتی اور اس کی تقدیر پر راضی ہونا بڑی بڑی مصیبتوں کو آسان کر دیتا ہے۔
تقدیر ایسی چیز ہے کہ انسان کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو مگر وہ اس کی تدبیر پر غالب آجاتی ہے۔
تقدیر الہی انسان کی تجویز اور تدبیر کے تابع نہیں بلکہ جو مقدر ہو چکا، وہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ گویا کوئی کیسی ہی تدبیر چلائے مگر وہ کام نہیں آتی۔
کام وہ ہوتے ہیں جو تقدیر میں لکھے ہیں۔ تقدیر کے آگے تدبیر کچھ کارگر نہیں ہوتی۔
اگر مخلوق کے رزق ان کی عقل کے مطابق تقسیم کئے جاتے تو جانوروں اور بے عقل لوگوں کے حصے میں بہت ہی تھوڑی روزی آتی اور وہ بھوک سے مر جاتے۔
تقدیر ایک تاریک مسئلہ ہے، تم اس پر نہ چلو۔ یہ ایک گہرا دریا ہے اس میں نہ گھسو اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بھید ہے تم اس کے سمجھنے کے پیچھے نہ پڑو۔
بے شک تجھے اپنی قسمت ضرور ملے گی۔ تیری روزی کا اللہ تبارک و تعالی خود ذمہ دار ہے۔
تقدیر میں جو کچھ تیرے نصیب میں لکھا ہے، وہ ضرور ملے گا۔ پس اپنے نفس کو حرص کی شقاوت اور طلب کی ذلت سے بچا۔ پس اللہ تبارک و تعالی سے ڈرتا رہ اور آرام کے ساتھ روزی تلاش کر زیادہ سرگرداں اور حیران مت ہو۔
قیامت میں سب سے زیادہ اور سخت عذاب اس شخص کو ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر نا خوش ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کا ثمرہ مستغنی اور لاپرواہی اور لالچ کا ثمرہ شقاوت و بدبختی ہے۔
تعجب ہے اس شخص پر جو اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ تعالی ہی روزی دیتا ہے اور وہ اسے مقرر فرما چکا ہے اور اس کی کوشش سے مقرر مقدار میں ذرہ بھر بھی زیادتی ان نہیں ہو سکتی تو پھر وہ اس کی طلب میں حریص اور شب و روز تکلیف کیوں اٹھا رہا ہے۔
فرزند آدم! آنے والے دن کی فکر نہ کر کیونکہ اس دن اگر تیری زندگی ہے تو اللہ تعالیٰ تیرا رزق بھی اس کے ساتھ لائے گا۔
اے بنی آدم ! تیری روزی تجھ سے بڑھ کر تیری طلب گار ہے۔ پس تجھے چاہیے کہ اس کی طلب میں شریعت کی سیدھی راہ پر چلتا رہے۔
تنگ دستی کی حالت میں مقروض ہونا گو یا سخت موت ہے اور تقدیر الہی پر بھروسہ کرنا نہایت آرام کا باعث ہے۔
جب تقدیر آجائے تو تدبیر اور ہوشیاری بیکار ہو جاتی ہے۔
ایمان کی افضل صفت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے۔
بدنی صحت کی حالت میں بھی تقدیر الہی سے بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
اصل ایمان یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو پوری طرح تسلیم کرے اور سب کچھ اسی کی طرف سے سمجھے۔
خوشی ہے اس شخص کے لئے جو عفاف کے زیور سے آراستہ اور قدر کفایت پر راضی ہو۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالانا اور اس کی تقدیر پر راضی رہنا کامل مردوں کا کام ہے۔
استغنا کو اس شخص نے پایا جو لوگوں کے مال و دولت سے ناامید ہو گیا اور جو ملا اس پر قانع اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہا۔
اگر تو صبر کرے گا تو جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہی ہوگا۔ مگر اس پر تجھے اجر و ثواب ملے گا۔ اور اگر بے صبری کرے گا۔ تو بھی تقدیر کی تحریر پوری ہوگی لیکن اس پر گناہ ہوگا۔
اگر تو نے اپنے ایمان کو مضبوط کر لیا اور جو کچھ تقدیر میں لکھا گیا ہے اس پر راضی رہا اور اللہ تعالی کے سوا کسی سے امید نہ رکھے اور ہر وقت اس بات کا منتظر رہ کہ تقدیر کیا کچھ پیش کرتی ہے۔ تو کامیاب رہا۔
کوئی روزی کا طلب گار تیری اس روزی کو کبھی نہیں پا سکتا ہے جو رازق نے تیرے مقدر میں لکھ دی ہے اور جو نعمت تیرے حق میں لکھی جا چکی ہے، اس کے حاصل کرنے میں کوئی شخص تجھ پر غالب نہیں آسکتا۔
با وجود قدرت کوتا ہی کرنا ایک بڑی مصیبت ہے تقدیر ہوشیار پر غالب آجاتی ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا تمام چیزوں سے مستغنی ہو جاتا ہے اور جو شخص آخرت کے عمل کرتا ہے وہ اپنے سب مقصود پا لیتا ہے۔
زندگی کی جڑ حسن تقدیر اور اس کا مدار حسن تدبیر ہے۔
اللہ تعالی کا حکم اس کی تقدیر کے مطابق اور انسان کی مرضی اور تدبیر کے خلاف اس پر جاری ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر آدمی کی تدبیر پر غالب آجاتی ہے اور تقدیر کے آنے سے آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔
جس شخص کی طرف دن اور رات متوجہ ہو جاتے ہیں، وہ اسے مصیبت میں مبتلا کرتے یا اسے نعمتوں سے مالا مال کر دیتے ہیں۔
آج کے دن آئندہ سال کی فکر نہ کر کیونکہ جو کچھ تیرے مقسوم میں لکھا ہے، وہ تجھے پہنچ جائے گا، اگر آئندہ سال کو تیری عمر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہر نئے روز میں جو کچھ تیرے مقسوم میں لکھا ہے، پہنچادے گا اور اگر تیری عمرختم ہو چکی ہے تو آئندہ سال کی فکر فضول ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہ کہ وہ تجھ سے راضی اور خوش رہے اور راست گوئی اختیار کرتا کہ عہد و پیمان کے پورا کرنے کا تجھے پاس ہو۔
اللہ تعالیٰ کا علم قطعی اور اس کی تقدیر مضبوط اور محکم ہے۔
ہر ایک آدمی کی روزی اس کی موت کی طرح مقرر ہو چکی ہے۔ جو کچھ تیرے مقسوم میں لکھا گیا ہے وہ کبھی خطا نہیں ہوتا۔ پس چاہیے کہ تو اس کی تلاش میں قانون شریعت کے خلاف نہ کرے اور جو چیز تیرے مقسوم میں نہیں لکھی گئی اس کو تو کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ خواہ اس کے لئے کتنی ہی کوشش کرے
اس لئے کہ تلاش روزی میں قانون شریعت کا پاس رکھنا ضروری ہے۔ جو مصائب تقدیر میں لکھے گئے ہیں، انسان کتنا ہی ہوشیار اور چوکنا رہے، وہ اس پر غالب آجاتے ہیں۔
تمام کام تقدیر الہی کے تابع ہیں۔ یہاں تک کہ انسان اپنی تدبیروں میں ہوتا ہے اور موت اسے پکڑ لیتی ہے۔
سختی و نرمی جو کچھ پیش آئے ہمیشہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو۔ جو روزی پہلے سے تقسیم ہو چکی ہے اس پر راضی رہ کہ مطمئن زندگی بسر ہو اور جو رزق مل چکا ہے، اس پر قناعت کر کہ سب تکالیف سے بچارہ۔
تمام لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا علم سب سے زیادہ اس شخص کو ہے جو اس کی تقدیر پر نہایت راضی ہے۔
دنیا اور آخرت کے بادشاہ وہ فقیر ہیں جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی اور اس کے حکم کی باگ پر سر جھکائیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اندھا آدمی ٹھیک اپنے مقصد کو پالیتا ہے اور گا ہے آنکھوں والا سیدھے راستے سے چوک جاتا ہے۔
جو شخص اللہ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے۔ وہ مصائب میں اچھی طرح صبر کرتا ہے۔
بندے پر اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت یہ ہے کہ بندہ اس کی تقدیر پر راضی ہو۔
بے شک تو اپنی موت کے مقررہ وقت سے آگے بڑھنے والا نہیں اور نہ تجھے وہ چیز مل سکتی ہے۔ جو تیرے مقسوم میں نہیں پس اسے بد بخت تو اپنے نفس کو کس لئے شقاوت میں ڈالتا ہے۔
یہ یقینی بات ہے کہ اگر خواہش نفس تجھ پر غالب آگئی تو تیری آخرت کو بگاڑ دے گی اور تجھے ایسی بلا میں ڈال دے گی جس کی کوئی انتہا نہیں اور اس بدبختی میں پھنسا دے گی۔ جس کے ختم ہونے کی کوئی امید نہیں۔
کبھی اچانک سب کام درست ہو جاتے اور کبھی طلب گار نا کام رہتے ہیں۔ کبھی اچانک بلا اور مصیبت سر پر آپڑتی اور کبھی اللہ کو منظور ہوتا ہے تو ٹل جاتی ہے۔
کبھی آرزوؤں کے پورا ہونے میں دشواری پیش آتی۔ کبھی موت جلدی سے آ جاتی اور کبھی بری خصلت آدمی کو دھبہ لگاتی ہے۔
آنے والے کل کی فکر نہ کر کیونکہ اگر تیری عمر باقی ہوگی تو اللہ تعالی اس دن کی روزی پہنچا دے گا اور اگر تیری عمر آج ختم ہو چکی ہے تو پھر اس روز کی فکر فضول ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، اس کا یقین قوی اور مضبوط ہو جاتا ہے۔
وہ شخص جس کا یقین درست نہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر کس طرح راضی ہو سکتا ہے۔
کبھی معاملات پیچیدہ اور مشکل ہو جاتے ہیں اور کبھی خوشی خراب ہو جاتی ہے۔
بہت سے روزی کے طلب گار ایسے نہیں جو اس سے محروم رہتے ہیں اور بہت لوگ ایسے ہیں کہ وہ اس کی تلاش نہیں کرتے مگر ان کو گھر میں بیٹھے بٹھائے روزی مل جاتی ہے۔
بہت سے غنی اور مال دار ایسے ہیں کہ کوئی ان کی پرواہ نہیں رکھتا اور بہت سے فقیر ایسے ہیں کہ ہر کوئی ان کا محتاج ہوتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے ، وہ کسی بچاؤ اور تدبیر کی پرواہ نہیں رکھتا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دور والے نزدیک اور نزدیک والے دور ہو جاتے ہیں۔ کبھی اپنا بچاؤ کرنے والا ہلاک ہو جاتا ہے۔ کبھی زور آور کا پاؤں پھسل جاتا ہے۔
کبھی نزدیک والے دور ہو جاتے ہیں اور کبھی سخت طبع نرمی قبول کرتے ہیں۔ کبھی مدد چاہنے والے کو بھی تکلیف پیش آجاتی ہے۔ اور کبھی قابل سزا لوگ بھی سزا اور تکلیف سے بچے رہتے ہیں۔
کبھی کلام کرنے سے نقصان ہوتا اور کبھی ملامت کرنے سے اثر ہو جاتا ہے۔ کبھی ٹیڑھے بھی سیدھے اور درست ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی حجت باز بھی دوسروں کی مدد کے طلبگار ہوتے ہیں۔
کبھی محروموں اور بے نصیبوں کو بھی روزی ملتی ہے۔ کبھی تلوار کے وار خالی جاتے اور کبھی خواب سچے نکل آتے ہیں۔
کبھی عاجز اور کمزور غالب آجاتے اور کبھی آسانی کے ساتھ مطلب نکل آتے ہیں۔
کبھی معمولات پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بھی سب خوشیاں برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔
تقدیر کے سواہر ایک چیز میں کوئی نہ کوئی حیلہ اور دوا ہے۔ اور قناعت اختیار کرنے میں پوری غنا ہے۔
بہت سے آدمی ایسے ہیں جو اپنے بچاؤ کیلئے تدبیر اور حیلہ کرتے ہیں۔ مگر تقدیر کا حیلہ ان کو منہ کے بل گرا دیتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جو لوگ ادبار میں پڑے ہوتے ہیں وہ صاحب اقبال ہو جاتے ہیں اور کبھی صاحب اقبال چاہ ادبار میں گر جاتے ہیں۔
اللہ تعالی کی تقدیر پر کوئی صابر اور راضی ہو یا اس میں جزع فزع ( بے قراری) کرے اُس کا قلم ملنے والا نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر نا خوش ہونا نہایت تکلیف کا باعث اور اس کے حکم پر راضی رہنا کمال کا موجب ہے۔ کبھی اندھا گھوڑا بھی ٹھوکر کھا جاتا ہے اور کبھی مایوسی کی جگہ سے مطلب نکل آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کیا ہے اور ہر ایک اندازہ کیلئے ایک مدت مقرر فرمائی ہے۔
ہر ایک فکر اور غم کے لئے زوال اور ہر ایک تنگی کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ اور تال ہے۔
بے شک اگر تم تقدیر الہی پر راضی رہو گے تو تمہاری زندگی مزے سے گزرے گی اور لوگوں سے بے پرواہی حاصل ہو جائے گی۔
روزی پہلے سے بٹ چکی ہے حریص محروم رہتا ہے اور بخیل کی مذمت ہوتی ہے۔ اپنی حرص کو چھوٹا کر اور جو روزی تیرے حق میں مقدر ہو چکی ہے اس پر ٹھہرارہ اس پر قناعت کرتا کہ تو اپنے دین کو محفوظ رکھے۔
جو چیز تمہارے لئے ضروری ہے اس کی فکرمت کر روزی جو تمہارے مقدر میں رکھ دی گئی ہے، اس کی فکر فضول ہے۔ پس بے فائدہ کام میں مت پڑ۔
جو شخص اللہ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے وہ نہایت چین اور آرام سے زندگی بسر کرتا ہے
جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، اسے جو کچھ مل جاتا ہے اس پر اکتفا کر لیتا ہے۔